سائین جی ایم سید اور باچا خان مذہب کی بنیاد پر تقسیم کے خلاف تھے، زین شاہ

اسلام آباد میں باچا خان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر و رہنما جی ڈی اے سید زین شاہ نے باچا خان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سائیں جی ایم سید نے لکھا ہے کہ باچا خان اخلاق کا مجسمہ، سادگی کا پتلہ، بڑا باہمت اور مخلص قومی کارکن ہے۔ میں بغیر کسی مبالغے کے یہ کہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں سب سیاستدانوں میں ان کا ریکارڈ اور کردار اتنا تو بلنداور روشن ہے جتنا تاروں میں چودھویں کا چاند۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج اس دور میں اگر ان کے تصور سیاست کو دیکھیں اور ہم نے جو سائیں جی ایم سید سے سیکھاکہ سیاست عبادت ہے جو خدمت کے ذریعے ہونی ہے۔ وہ کام جو انبیاء اور صحابہ اکرام کرتے تھے آج سیاسی قومی کارکنوں کو وہ کام کرنا ہے۔ سید زین شاہ نے کہا کہ ایک جگہ پر میں نے باچا خان کی تقریر کو سنا جس میں انہوں نے اپنے دوستوں کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے خدائی خدمت گار کی پاک تحریک کامیاب کرنا ہے۔ یہ تھا ان کا تصور سیاست۔انہوں نے کہا کہ فلسفہ ہے کہ محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے لیکن ہم اس چیز کی نفی کرتے ہیں اور اس کو نہیں مانتے کیونکہ تحریکوں میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئیے طریقے بھی جائز ہونے چائیے۔سائیں جی ایم سید نے کہا کہ اتحاد انسانی، امن عالم اور ترقی بنی آدم کے لئیے یہ سیاسی تحریکیں ہیں۔ جو تحریکیں اتحاد انسانی، امن عالم اور ترقی بنی آدم کے خلاف ہیں وہ جائز نہیں ہیں۔ باچا خان اور سائیں جی ایم سید کی سیاست کا مقصد عوام کی محکومی کو ختم کرنا،سماجی بہتری اور ترقی اور قومی تشخص کی بحالی تھا۔ اسی کے گرد ان کی سیاست رہی۔ انہوں نے کہا کہ آج کی سیاست میں اصول اور کردار ختم ہو چکا ہے لیکن باچا خان کی سیاست میں ہمیں بے لوث قربانی، آردشی سیاست اور ذاتی حاصلات کی نفی کے اصول نظر آتے ہیں جس کے لئیے ایک رول ماڈل سوسائٹی میں قومی کارکن، فرد اور جماعت کو آگے بڑھنا ہے۔ سید زین شاہ نے کہا کہ باچا خان کی سیاست عدم تشدد، غیر فرقہ پرست اور خدائی خدمت پر مبنی تھی اس لئیے ان کی پہلی تنظیم خدائی خدمت گار تھی۔ ان کا عدم تشدد وہ ہتھیار تھا جو بہادری کی بنیاد پر تھا اور اسی ہتھیار کو سائیں جی ایم سید اور باچا خان جرت سے پیش کرتے تھے اور روح زمین پر کسی بھی طاقت سے ڈرتے نہیں تھے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مذہب کی بنیاد پر اس ملک کی تقسیم کے خلاف تھے۔انہوں نے کبھی بھی وقتی مفادات کے لئیے سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کی جدوجہد میں کوئی ڈر اور خوف نہیں تھا۔ سید زین شاہ نے کہا کہ باچا خان نے کہا کہ ایک دن میں سوات کے حکمران عبدالودود کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ آپ بھی انگریزوں سے آزادی کے لئیے ہمارا ساتھ دیں ان کے تاثر سے محسوس ہوا کہ وہ خدا سے کم اور انگریزوں سے زیادہ ڈرتا تھا اور پچھلے ہفتے بلوچستان میں ہونی والی کانفرنس میں نواب اسلم رئیسانی نے تقریر میں کہا کہ میں خدا سے کم اور پاکستان کی فوج سے زیادہ ڈرتا ہوں کیونکہ وہ خدا غفور رحیم ہے لیکن ہماری فوج نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سائیں جی ایم سید اور باچا خان کے نظریے اور ان کے مقصد کے پیروکار ہیں لیکن ان کے تصورات کو ریاست نے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی فارن پالیسی کو تبدیل کرنا ہو گا۔ملک کے موجودہ حالات میں بہتر ہو گاکہ ہم انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ سے داخلی اور خارجی معائدے کے بجائے اپنے پڑوسی ملکوں سے تعلقات بہتر بنائیں جس سے یہ خطہ اآئندہ بیس سالوں میں اکنامک پاور بن جائے گا۔ اس خطے کو (USSA) یونائیٹڈ اسٹیٹس آف ساوتھ ایشیاکر کے یورپین یونین کے طرح علاقہ بنایا جائے یہ ہی باچا خان اور سائیں جی ایم سید کا تصور ہے۔

اسلام آباد میں باچا خان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید زین شاہ نے باچا خان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سائیں جی ایم سید نے لکھا ہے کہ باچا خان اخلاق کا مجسمہ، سادگی کا پتلہ، بڑا باہمت اور مخلص قومی کارکن ہے۔ میں بغیر کسی مبالغے کے یہ کہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں سب سیاستدانوں میں ان کا ریکارڈ اور کردار اتنا تو بلنداور روشن ہے جتنا تاروں میں چودھویں کا چاند۔
انہوں نے کہا کہ اگر آج اس دور میں اگر ان کے تصور سیاست کو دیکھیں اور ہم نے جو سائیں جی ایم سید سے سیکھاکہ سیاست عبادت ہے جو خدمت کے ذریعے ہونی ہے۔ وہ کام جو انبیاء اور صحابہ اکرام کرتے تھے آج سیاسی قومی کارکنوں کو وہ کام کرنا ہے۔
سید زین شاہ نے کہا کہ ایک جگہ پر میں نے باچا خان کی تقریر کو سنا جس میں انہوں نے اپنے دوستوں کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے خدائی خدمت گار کی پاک تحریک کامیاب کرنا ہے۔ یہ تھا ان کا تصور سیاست۔انہوں نے کہا کہ فلسفہ ہے کہ محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے لیکن ہم اس چیز کی نفی کرتے ہیں اور اس کو نہیں مانتے کیونکہ تحریکوں میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئیے طریقے بھی جائز ہونے چائیے۔سائیں جی ایم سید نے کہا کہ اتحاد انسانی، امن عالم اور ترقی بنی آدم کے لئیے یہ سیاسی تحریکیں ہیں۔ جو تحریکیں اتحاد انسانی، امن عالم اور ترقی بنی آدم کے خلاف ہیں وہ جائز نہیں ہیں۔ باچا خان اور سائیں جی ایم سید کی سیاست کا مقصد عوام کی محکومی کو ختم کرنا،سماجی بہتری اور ترقی اور قومی تشخص کی بحالی تھا۔ اسی کے گرد ان کی سیاست رہی۔
انہوں نے کہا کہ آج کی سیاست میں اصول اور کردار ختم ہو چکا ہے لیکن باچا خان کی سیاست میں ہمیں بے لوث قربانی، آردشی سیاست اور ذاتی حاصلات کی نفی کے اصول نظر آتے ہیں جس کے لئیے ایک رول ماڈل سوسائٹی میں قومی کارکن، فرد اور جماعت کو آگے بڑھنا ہے۔
سید زین شاہ نے کہا کہ باچا خان کی سیاست عدم تشدد، غیر فرقہ پرست اور خدائی خدمت پر مبنی تھی اس لئیے ان کی پہلی تنظیم خدائی خدمت گار تھی۔ ان کا عدم تشدد وہ ہتھیار تھا جو بہادری کی بنیاد پر تھا اور اسی ہتھیار کو سائیں جی ایم سید اور باچا خان جرت سے پیش کرتے تھے اور روح زمین پر کسی بھی طاقت سے ڈرتے نہیں تھے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ مذہب کی بنیاد پر اس ملک کی تقسیم کے خلاف تھے۔انہوں نے کبھی بھی وقتی مفادات کے لئیے سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کی جدوجہد میں کوئی ڈر اور خوف نہیں تھا۔
سید زین شاہ نے کہا کہ باچا خان نے کہا کہ ایک دن میں سوات کے حکمران عبدالودود کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ آپ بھی انگریزوں سے آزادی کے لئیے ہمارا ساتھ دیں ان کے تاثر سے محسوس ہوا کہ وہ خدا سے کم اور انگریزوں سے زیادہ ڈرتا تھا اور پچھلے ہفتے بلوچستان میں ہونی والی کانفرنس میں نواب اسلم رئیسانی نے تقریر میں کہا کہ میں خدا سے کم اور پاکستان کی فوج سے زیادہ ڈرتا ہوں کیونکہ وہ خدا غفور رحیم ہے لیکن ہماری فوج نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سائیں جی ایم سید اور باچا خان کے نظریے اور ان کے مقصد کے پیروکار ہیں لیکن ان کے تصورات کو ریاست نے قبول نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی فارن پالیسی کو تبدیل کرنا ہو گا۔ملک کے موجودہ حالات میں بہتر ہو گاکہ ہم انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ سے داخلی اور خارجی معائدے کے بجائے اپنے پڑوسی ملکوں سے تعلقات بہتر بنائیں جس سے یہ خطہ اآئندہ بیس سالوں میں اکنامک پاور بن جائے گا۔ اس خطے کو (USSA) یونائیٹڈ اسٹیٹس آف ساوتھ ایشیاکر کے یورپین یونین کے طرح علاقہ بنایا جائے یہ ہی باچا خان اور سائیں جی ایم سید کا تصور ہے۔